منتظر کب سے تØ*یر ہے تری تقریر کا

منتظر کب سے تØ*یر ہے تری تقریر کا

بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
رات کیا سویا کہ باقی عم کی نیند اڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
جس طرØ* بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے وہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
کس طرØ* پایا تجھے پھر کس طرØ* کھویا تجھے
مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا
عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے مہر لوگ
جوئے خوں کو نام دے دیتے ہیں جوئے شیر کا
جس کو بھی چاہا اسے شدت سے چاہا ہے فراز
سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا